دن بھر میں کسی ایک کھانے کوبھی چھوڑنا انتہائی خطرناک ثابت ہوسکتا ہے، تحقیق

دور جدید کی اس انتہائی مصرف زندگی میں لوگوں کی اکثریت دن بھر میں کسی نہ کسی ایک کھانے کوکام کی زیادتی یا وقت کی کمی کی وجہ سے چھوڑ دیتی ہے تاہم ایک نئی تحقیق کے مطابق دن میں معیاری تین کھانوں میں سے ایک کو بھی چھوڑنا سنگین نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔

اس تحقیق میں امریکا کے 24011 ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کی عمر 40 برس سے زائد تھی۔ جو دن میں صرف ایک کھانا کھاتے تھے نتائج کے مطابق سارے دن میں صرف ایک کھانا چھوڑنا موت کے زیادہ خطرے سے منسلک تھا۔ ایسے افراد جو ناشتہ نہیں کرتے تھے ان میں امراض قلب سے مرنے کا خطرہ زیادہ جب کہ دوپہر یا رات کا کھانا چھوڑ دینا دل کی بیماری سمیت ہر طرح سے اموات کے زیادہ خطرے سے منسلک تھا۔

یہاں تک کہ یہ خطرہ ان لوگوں میں بھی موجود تھا جنہوں نے تینوں کھانوں کو غذا میں تو شامل رکھا لیکن ان کے درمیان وقفہ بہت کم تھا یعنی ان کے دوکھانوں کے درمیان محض 4.5 گھنٹے کا وقفہ بھی موت کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔

اگرچہ مطالعے میں ایسے پیغامات ایک مبہم صورت پیش کرتے ہیں جس میں وقفے وقفے سے روزہ رکھنا آپ کے لیے اچھا ہو سکتا ہے، ڈیٹا جسم کے لیے باقاعدگی سے ایندھن بھرنے کے عمل کے رک جانے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔

یونیورسٹی آف ٹینیسی کے ماہر وبائی امراض یانگبو سن کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ روزانہ صرف ایک کھانا کھانے والے افراد میں موت کا امکان ان لوگوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے جو روزانہ زیادہ کھانا کھاتے ہیں۔

ان نتائج کی بنیاد پر محققین پورے دن میں کم از کم دو سے تین کھانے کھانے کی سفارش کرتے ہیں۔

مطالعہ کے تقریباً 30 فیصد شرکاء باقاعدگی سے دن میں تین سے کم کھانا کھاتے تھے۔ اعداد و شمار کے مطابق وہ لوگ جو کم عمر، مرد، غیر ہسپانوی سیاہ فام تھے، جن کی تعلیم اور خاندانی آمدنی کم تھی ان عوامل کے سبب ان کا کھانا چھوڑنے کا امکان زیادہ تھا۔

کھانا چھوڑنا ان لوگوں میں بھی زیادہ پایا جاتا تھا جو زیادہ سگریٹ نوشی کرتے تھے، زیادہ غذائی عدم تحفظ کا شکار تھے، جو کم غذائیت سے بھرپور اورزیادہ نمکین غذا کھاتے تھے، اور مجموعی طور پر کم توانائی لیتے تھے۔

یہ مطالعہ اتنا جامع نہیں ہے کہ اس بات کا تعین کر سکے کہ کیا کھانا چھوڑنا درحقیقت پہلے موت کا سبب بنتا ہے تاہم یہ صرف مزید تحقیق کے لیے ایک راہ ہموار کرتا ہے۔ جبکہ ممکن ہے کہ اس میں دیگرعوامل بھی اہم کردار ادا کرتے ہوں جو اس تحقیق کے دوران شامل ہونے سے رہ گئے ہوں جوکہ کھانے کی عادات اور اموات کے خطرے دونوں کو متاثر کرتے ہیں۔

تحقیقی ٹیم نے اپنے نتائج کو متعدد غذائی اور طرز زندگی کے عوامل میں ردوبدل کے حساب سے ایڈجسٹ کیا، بشمول تمباکو نوشی، الکحل کا استعمال، جسمانی سرگرمی کی سطح، توانائی کی مقدار، خوراک کا معیار، اور خوراک کی عدم تحفظ، تاہم ان کو مد نظر رکھ کر بھی نتائج میں یہ ربط بہر صورت موجود تھا۔

آئیووا یونیورسٹی کے ماہر وبائی امراض کے ماہر وی باؤ کا کہنا ہے کہ ہمارے نتائج عوامی اعداد و شمار سے اخذ کیے گئے مشاہدات پر مبنی ہیں اور اس کا مطلب یہ وجہ نہیں ہے۔ بہر حال، ہم نے جو مشاہدہ کیا ہے وہ میٹابولک معنی رکھتا ہے۔

اس میٹابولک سینس سے مراد وہ طریقہ ہے جو کہ مخصوص وقفوں پر کھانا چھوڑنا عام طور پر ایک ہی وقت میں زیادہ توانائی لینے کا باعث بنتا ہے۔ یہ جسم کے گلوکوز کو منظم کرنے کے طریقے میں عدم توازن کے ساتھ میٹابولک نظام میں بگاڑ کا سبب بن سکتا ہے۔

حالیہ اعدادوشمارکے مطابق امریکہ میں تقریباً 59 فیصد مرد اور تقریباً 63 فیصد خواتین دن میں تین وقت مناسب مقدار میں کھانا کھاتے ہیں۔ جبکہ اس کے علاوہ آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے جو ممکنہ طور پر ناشتے، دوپہر کے کھانے اور رات کے کھانے سے محروم ہو کر خود کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔

اس میں ان تمام قسم کی وجوہات کا احاطہ کیا گیا ہے کہ جیسے کام کے اوقات، وقت کا دباؤ، غربت، مختلف پرہیز، اور روزہ رکھنے کے طریقے شامل ہے، اس تحقیق میں شامل ٹیم باقاعدہ کھانے کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پر امید ہے اور ان کا ماننا ہے کہ اس تحقیق سے مزید تجزیے کی حوصلہ افزائی ہوگی۔

باؤ کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق کھانے کے وقت اور روزانہ کی غذا کی مقدار اور اس کے درمیان وقفے کے تناظر میں کھانے کے طرز عمل اور اموات کے درمیان تعلق کے بارے میں انتہائی ضروری ثبوت فراہم کرتی ہے۔

یہ تحقیق جرنل آف دی اکیڈمی آف نیوٹریشن اینڈ ڈائیٹکس میں شائع ہوئی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں