پاکستان ا نجینئرنگ کونسل کے این او سی کے بغیر طلبا کو یونیورسٹی میں داخلہ دینے کا معاملہ سپریم کورٹ نے پرسٹن یونیورسٹی کوہاٹ سے متعلق تحریری حکم جاری کر دیا ۔جسٹس جمال مندوخیل نے 8صحفات پر مشتمل تحریری حکم مزید پڑھیں

خالد ارشاد صوفی
نائلہ کی گاشربروم ٹوچوٹی سر کرنے کی مہم جوئی سے دنیا کے
بڑے بڑے کوہ پیما اس لیے بھی حیران ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ
چوٹی اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے صرف چند ماہ بعد سر کی
نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
کیا یہ بات تصور بھی کی جا سکتی ہے کہ ایک خاتون اپنے بچے کی پیدائش کے صرف چند ماہ بعد ہی دنیا کی بلند ترین چوٹی سر کرنے نکل پڑے اور پھر وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہوجائے۔ اسی طرح کیا کبھی کسی کے ذہن و گمان میں بھی یہ بات آ سکتی ہے کہ گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان لڑکی دنیا کے 7براعظموں کی 7بلند ترین چوٹیوں پر سبز ہلالی پرچم لہرا کر پاکستان کا نام روشن کر سکتی ہے؟یہ باتیں سننے میں خیالی اور افسانوی لگتی ہیں لیکن یہ حقیقت ہے ۔پاکستان کی دو بیٹیوں ثمینہ اور نائلہ نے 22جولائی 2022 کو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹوسر کر کے عزم وہمت کی ایسی مثال قائم کی کہ جس کی نظیر نہیں ملتی۔ان دونوں خواتین نے ایک ساتھ مہم جوئی کا آغاز کیا۔ثمینہ بیگ کے ٹو سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بنیں اور ان کے اس کارنامے کے چھ گھنٹے بعد نائلہ کیانی نے یہ چوٹی سر کرنے والی دوسری پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔
ثمینہ بیگ کی کہانی شروع ہوتی ہے پاک چین بارڈر کی ایک خوبصورت سی وادی کے چھوٹے سے گائوں شمشال سے جہاں سڑکیں ہیں نہ ہسپتال اور نہ ہی اعلیٰ تعلیمی سہولیات۔یہاں تک کہ آج سے چند برس پہلے اس علاقے کا بذریعہ سڑک باہر کی دنیا سے کوئی رابطہ بھی نہیں تھا۔ لیکن یہاں کے لوگوں کے عزائم اس قدر بلند ہیں کہ شمشال نامی پسماندہ گائوں سے تعلق رکھنے والی ثمینہ بیگ نے سبز ہلالی پرچم دنیا کی سات بلند ترین چوٹیوں پر لہرا یا ۔
دوسری جانب راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی پاکستان کی ایک اور بیٹی نائلہ کیانی ہے جو اگرچہ پاکستان کے بیشتر کوہ پیمائوں کی طرح گلگت یا اِس کے آس پاس کے علاقوں سے تعلق نہیں رکھتیں بلکہ یہ راولپنڈی جیسے گنجان آباد اور بہترین سہولیات سے مزین شہر میں پیدا ہوئیں لیکن ان کی زندگی بھی جدوجہد اور سیلف میڈ انسان کی ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔
پاکستان کی ان دونوں بیٹیوں نے متوسط اورقدامت پسند گھرانوں میں آنکھ کھولی لیکن اِن آنکھوں سے خواب بہت بڑے بڑے دیکھے۔ اور صرف خواب نہیں دیکھے بلکہ اِن خوابوں کو حقیقت کے روپ میں ڈھالنے کیلئے اپنی جان تک کو داؤ پر لگانے سے گریز نہ کیا۔ پہلے بات کرتے ہیں ثمینہ بیگ کی جن کی زندگی محنت، جدوجہد اور عزم کی ایک خوبصورت داستان ہے۔
ثمینہ کے خاندان میں تقریباً سبھی افراد کوہ پیما ہیں یا کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اب ان لوگوں کی دیکھا دیکھی ثمینہ کو بھی پہاڑوں کو سر رکھنے کی خواہش تھی، لیکن یہاں مسئلہ یہ تھا کہ خاندان کی کسی بھی خاتون نے بلند چوٹیوں کو سر کرنا تو درکنار، اِن کے حوالے سے سوچا تک نہ تھا۔ دوسری جانب ثمینہ کے بڑے بھائی مرزا علی بیگ کی یہ خواہش تھی کہ وہ اپنی بہن کے دنیا کی بلندچوٹیوں کو سر کرنے کے خواب کو حقیقت میں بدلیں، لیکن اس خواب کو حقیقت کی تعبیرکے لیے اِن کے پاس وسائل انتہائی محدود تھے۔ ثمینہ کے بڑے بھائی مرزا علی بیگ بیرون ملک سے پاکستان کے ٹو سر کرنے کی خواہش لے کر آنے والے کوہ پیمائوں کے برتن دھویا کرتے تھے، اس کے علاوہ بھی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے انہوں نے انتہائی مشکل نوکریاں کیں، لیکن یہ وہ کام نہیں تھا، جسے وہ اپنا جنون، اپنا شوق سمجھتے تھے اور دوسرا یہ کہ بہن کا خواب پورا کرنے کی ایک امنگ اور عزم تھا جو انہیں کچھ کر گزرنے کیلئے مجبور کر رہا تھا۔
ثمینہ بیگ اور اِن کے بڑے بھائی نے جب دنیا کی سب سے اونچی چوٹی ایوریسٹ سر کرنے کا ارادہ کیا تو اُس وقت ثمینہ کی عمر صرف 20برس تھی۔ ایوریسٹ سر کرنے سے قبل جب انہوں نے پاکستان میں پریس کانفرنس کی، تو اُس وقت کسی نے بھی اِن دونوں بہن بھائی کی باتوں میں دلچسپی نہیں لی، یہاں تک کہ ایک صحافی نے یہ سوال کر دیا کہ یہ چھوٹی سی نازک بچی آخر کیسے مائونٹ ایوریسٹ سر کرے گی، لیکن انہیں کیا معلوم تھا کے ٹو اور مائونٹ ایوریسٹ جیسی چوٹیاں سر کرنے کیلئے مضبوط جسم سے زیادہ پختہ ارادے اور چٹان سے زیادہ سخت اعصاب کی ضرورت ہوتی ہے۔مرزا علی بیگ اپنے ایک انٹرویو میں بتاتے ہیں کہ وہ مائونٹ ایوریسٹ سر کرنے سے قبل سات برس سپانسر کی تلاش میں بھٹکتے رہے لیکن اُنہیں کسی بھی کمپنی یا سرمایہ کار نے سپانسر کرنے کی حامی نہ بھری۔ آخر اُنہیں سپانسر ملا بھی تو نیوزی لینڈ سے ۔
نیوزی لینڈ کے سپانسر کے سامنے علی بیگ نے یہ خیال رکھا کہ وہ اپنی چھوٹی بہن کے ساتھ مائونٹ ایوریسٹ سر کرنا چاہتے ہیں اور اگر وہ اس مشن میں کامیاب رہے تواُن کی بہن مائونٹ ایوریسٹ سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون بن جائے گی اور وہ یقینا پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں خواتین کی امپاورمنٹ کیلئے ایک موٹیویشن بن جائیں گی۔ سپانسر کو یہ خیال پسند آیا اور آخر اِن دونوں بہن بھائی نے اپنے پہلے مشکل ترین مشن کا آغاز کیا۔
ثمینہ بیگ پاکستان میں ایڈوینچر سپورٹ اور کوہ پیمائی میں دلچسپی رکھنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کرنا اور عورتوں کو برابری دلانا اوربا اختیار بنانا چاہتی تھیں، اُن کے اسی ارادے کی بدولت وہ پہلے مائونٹ ایوریسٹ اور بعدازاں کے ٹوسر کرنے میں کامیاب ہوئیں۔ ثمینہ بتاتی ہیں کہ چونکہ وہ کوہ پیمائی کے لیے پاکستانی خواتین کی حوصلہ افزائی اور پاکستان میں اسے پروموٹ کرنا چاہتی تھیں لہٰذا کے ٹو سے تقریباً 248 میٹر کے فاصلے پر اُن کے بھائی مرزا علی بیگ واپس مڑ گئے۔وہ اپنے ہم وطن پاکستانیوں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھیں کہ اگر آپ اپنی بہنوں اور بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کی مدد کرتے ہیں اور انھیں مواقع دیتے ہیں تو وہ دنیا کے سب سے اونچے پہاڑ ایوریسٹ اور سب سے خطرناک پہاڑ کے ٹو کو بھی سر کر سکتی ہیں۔
ثمینہ بیگ نے کس قدر مشکل اور ایڈونچر سے بھرپور کام سر انجام دیا ہے، اس بات کا اندازہ یہاں سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہ 8ہزار میٹر کی بلندی پر انتہائی سرد موسم میں کوہ پیما کے زندہ رہنے کا امکانات 20فیصد ہوتے ہیں اور پہاڑی کو سر کرتے وقت ایک مقام وہ بھی ہوتا ہے جسے’’ ڈیتھ زون‘‘ کہا جاتا ہے۔کوہ پیما ڈیتھ زون پر صرف 16گھنے تک تک زندہ رہ سکتے ہیں اور اتنی اونچائی پر رہنے سے انسانی دماغ اور جسم پر انتہائی خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سطح سمندر سے 8ہزار 611میٹر پر بلندی پر واقع بوٹل نیک کے نام سے واقع مقام تقریبا 8ہزار میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیمائوں کی اصطلاح میں اسے ڈیتھ زون یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے۔یہاں کوہ پیمائوں کو جان لیوا قدرتی موسم کے ساتھ نبردآزما ہونے کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کے اندر بھی ایک جنگ لڑنا ہوتی ہے۔ ڈیتھ زون میں انسانوں کو سانس لینے کے لیے درکار آکسیجن کی کمی سے جہاں ایلٹی ٹیوڈ سکنس نامی بیماری ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، وہیں اتنی بلندی پر تیز ہوائیں بھی کوہ پیمائوں کیلئے جان لیوا ثابت ہو سکتی ہیں۔
جہاں انتہائی کم درجہ حرارت بھی جسم کے کسی بھی حصے میں فراسٹ بائیٹ کا باعث بھی بن سکتا ہے ۔طبی ماہرین کے مطابق انسانی جسم سطح سمندر سے 2ہزار 1سو میٹر کی بلندی پر رہنے کے لیے بنا ہے اور اس سے زیادہ بلندی پر انسانی جسم میں آکسیجن کی سیچوریشن انتہائی تیزی سے کم ہونا شروع ہو جا تی ہے اور جسم میں منفی اثرات رونما ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔
دوسری جانب نائلہ ایک ایسی نوجوان لڑکی ہے جس نے ساری زندگی جدوجہد اور محنت کرنے میں گزار دی اور اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کیلئے وہ کچھ کر دکھایا جس کا تصور کر نا بھی مشکل ہے۔ نائلہ نے میٹرک کے بعد ایرو سپیس انجینئر بننے کا فیصلہ کیاتو ان کے گھر کے حالات ایسے نہ تھے کہ وہ کالج اور پھر یونیورسٹی کی بھاری فیس ادا کر پاتیں، اس مسئلے کا حل انہوں نے یہ نکالا کہ نائٹ شفٹ میں ملازمت اختیار کر لی، رات کو کام کرتیں اور دن میں پڑھائی، اسائمنٹس بناتیں اور پریزنٹیشن ترتیب دیتیں۔ انہوں نے بڑی محنت اور لگن کے بعد آخر نمایاں نمبروں سے کالج کی تعلیم مکمل کرلی۔ ایرو سپیس انجینئرنگ کے شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے انہیں برطانیہ کا رُخ کرنا پڑا۔ یہاں بھی اخراجات ان کی پہنچ سے دور تھے، لیکن انہوں نے صرف ہمت اور عزم کے بل بوتے پر یہ کارہائے نمایاں بھی انجام دے دیا۔
نائلہ کیانی کے حوالے سے ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ باکسنگ کا بھی شوق رکھتی ہیں اور پہاڑوں کو سر کرنے کا جنون بھی ہے۔ اِن تمام دلچسپیوں کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے نائلہ نے اپنی زندگی کی جو پہلی چوٹی سر کرنے کا فیصلہ کیا اُس کا نام’’گاشر بروم ٹو‘ ‘ہے۔ یہ چوٹی 8ہزار میٹر کی بلندی پر واقع ہے یعنی یہ چوٹی کے ٹوپہاڑسے صرف 611میٹر چھوٹی ہے۔ اب آپ سوچیں کہ ایک ایسی لڑکی جس نے اپنی زندگی میں 8ہزار تو کیا، کبھی 3اور 5ہزار میٹر کی بلندی پر واقع چوٹی بھی سر نہیں کی تھی، اُس نے پہلی ہی کوشش میں 8ہزار میٹر کی بلندی پر واقع گاشربروم ٹوچوٹی سر کرنے کا فیصلہ کر کے کتنا خطرناک اور مہم جوئی سے بھرپور فیصلہ کیا تھا۔ یہاں ایک اہم بات یہ بھی ہے چونکہ پاکستان میں زیادہ تر کوہ پیماؤں کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے اور ان کا بچپن ہی پہاڑوں میں گزرتا ہے، اس لیے یہ اس ماحول کے عادی ہو جاتے ہیں جبکہ نائلہ میدانی علاقے کی رہنے والی تھیں۔ اس لیے ان کا آٹھ ہزار میٹر تک پہنچا مشکل سمجھا جارہا تھا، انہیں ساتھی کوہ پیمائوں نے اپنا فیصلہ بدلنے کا مشورہ دیا، لیکن گاشربروم ٹو کے بیس کیمپ تک پہنچ کر انہوں نے فیصلہ کیا کہ اب وہ واپس نہیں پلٹیں گی۔
پھر وہی ہوا جس کا نائلہ کو یقین تھا، اِنہوں نے تمام اندازے غلط ثابت کرتے ہوئے گاشربروم ٹو چوٹی سر کر لی۔ نائلہ کی گاشربروم ٹو چوٹی سر کرنے کی مہم جوئی سے دنیا کے بڑے بڑے کوہ پیما اس لیے بھی حیران ہوئے کیونکہ انہوں نے یہ چوٹی اپنے دوسرے بچے کی پیدائش کے صرف چند ماہ بعد سر کی،یعنی جس کنڈیشن میں خواتین ٹھیک طرح سے چلنے پھرنے کے بھی قابل نہیں ہوتیں، نائلہ اعصاب کی اتنی مضبوط نکلیں کہ انہوں نے دنیا کی بلند ترین چوٹیوں میں سے ایک سر کر لی۔ یوں نائلہ کیانی کو اپنے بچے کی پیدائش کے چند ماہ بعد آٹھ ہزار میٹر کی چوٹی سر کرنے والی پہلی پاکستانی خاتون ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہو گیا۔
2021میں گاشربروم ٹو چوٹی سر کرنے کے بعد نائلہ نے 2022میں دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو سر کرنے کا پروگرام بنایا۔ اس سلسلے میں انہوں نے ثمینہ بیگ سے رابطہ کیا جو خود بھی کے ٹو سر کرنے کا منصوبہ تشکیل دے رہی تھیں۔ ان دونوں خواتین کو یہ پروگرام بناتے ہوئے چند ماہ لگے، اس دوران کے ٹوپرہر گزرتے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتے موسم کو بھی انہوں نے مدِنظر رکھا ہوا تھا۔ آخر موسم بہتر ہونے کے بعد ثمینہ اور نائلہ نے رخت سفر باندھا اور آخرکار دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی سر کر لی۔