امریکی ریاست ٹینیسی کے شہر نیشول کے اسکول میں فائرنگ سے 3 کمسن طالبعلموں سمیت 6 افراد ہلاک ہوگئے۔ پولیس کے مطابق فائرنگ کرنے والی کم عمر لڑکی تھی جو جوابی کارروائی میں ماری گئی۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مزید پڑھیں

لاہور(نمائندگان جنگ) سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اداروں کے بجائے آئین توڑنے والے جرنیل اور غلط فیصلہ دینے والے ججز پر نام لیکر تنقید کریں ،توہین عدالت اور دیگر حیران کن الزمات پر پاکستانی وزیر اعظموں کو گھر بھیجنے کا سلسلہ رکا نہیں ہے،حیران ہوں کہ میاں نواز شریف کو تنخواہ نہ لینے پر کہا گیا آپ اچھے مسلمان نہیں ہیں اسلئےگھر جائیں، روتا ہوں جب ایک جج نے کہا بھٹو کو پھانسی کیلئے ضیاء الحق کا دباؤ تھا، آئین تو ٹوٹا مگر نصرت بھٹو کی پٹیشن ناقابل سماعت قرار پائی،فیٹف جیسی لسٹ بنائی جائے توجنرل ایوب، ضیاء الحق، مشرف، جسٹس منیر، انوارالحق اور ارشاد حسن بلیک لسٹ ، جنرل میسروی، گریسی، آصف نواز، جسٹس کانسٹنٹائن،کارنیلسن اور محمد بخش کو وائٹ لسٹ میں شامل کرونگا، رضا ربانی کا کہناہےکہ عدلیہ اسٹیبلشمنٹ گٹھ جوڑ سے پارلیمینٹ بیکار ہو چکی،احسن بھون نے کہاکہ جج ہجوم سے نہ ڈر یں۔ دو روزہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس کے افتتاحی سیشن میں جنوبی ایشیاء میں آئین پرستی کے بحران کے موضوع پر رشید رضوی، ڈاکٹر مالک، عمر زخیلوال ، اعظم نذیر ، احسن اقبال،سفارتکاروں ودیگر شخصیات نے بھی اظہار خیال کیا۔ کانفرنس سے خطاب میںجسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا یہ یاد کرکے رو پڑتا ہوں جب سپریم کورٹ کے جج نے یہ کہا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کیلئے ضیا الحق کا دباؤ ہے،آج میں کہتا ہوں کہ اگر اعلیٰ عدلیہ کا کوئی جج کہتا ہے کہ مجھ پر بیرونی دباؤ ہے تو وہ سچ نہیں ہے،اگر کوئی کچن کی ہیٹ نہیں برداشت کرسکتا ہے تو وہ کچن چھوڑ دے،افسوس ملک میں پلاٹوں کی سیاست ہورہی ہے،مجھے اپنے حق کے دفاع کیلئے چیف جسٹس کو خطوط لکھنے پر شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا، مجھے گالیاں دی گئیں،فیٹف کی طرح لسٹ بنائی جائے تو میں اپنے ادارے کے ججوں کو اس طرح لسٹ میں ڈالوں گا میں جسٹس منیر ، جسٹس انوارالحق ، جسٹس ارشاد حسن کو بلیک لسٹ میں ڈالوں گا ، جسٹس کانسٹنٹائن ،جسٹس کارنیلس،جسٹس آچل ،جسٹس محمد بخش کو وائیٹ لسٹ میں ڈالوں گا ،فوج میں جنرل ایوب جنرل ضیا اور جنرل مشرف کو بلیک لسٹ میں ڈالوں گا، جنرل آصف نواز اور پاک فوج کے پہلے کمانڈر انچیف سفید فام انگریز جنرل سر فرینک والٹر میسروی اور دوسرے کمانڈر انچیف جنرل سر ڈوگلس گریسی کو وائیٹ لسٹ میں ڈالوں گا ،جنرل ایوب پہلا فوجی تھا جس نے پلاٹ مانگا اس کے بعد افسران حق سمجھنے لگے،چیف جسٹس کو خط لکھا کہ ججوں کو پلاٹوں سے نوازنے کا کوئی قانون ہے تو اس کے مطابق دیا جائے لیکن جواب آیا خود ہی قانون تلاش کریں لیکن مجھے ایسا کوئی قانون نہیں ملا ، عدلیہ کے احتساب میں یقین رکھتا ہوں ،خوش ہوں کہ فیٹف نے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکال دیا لیکن کیا ہم کوئی ایسی نگران شہری تنظیم یا باڈی بنا سکتے ہیں جس کے احکامات پر دنیا کے ممالک عمل کریں؟ آئین پر پہلا حملہ ایک بیورو کریٹ غلام محمد نے آئین کو تحلیل کرکے کیا لیکن وفاقی کورٹ نے تحلیل کے احکامات کو برقرار رکھا دوسرا حملہ 1956ء میں سکندر مرزا اور جنرل ایوب خان نے کیا ،جسٹس منیر نے اس حملے کو بھی جائز قرار دیا ،بھٹو کی قیادت میں متفقہ آئین منظور کیا گیا اس کے بعد آئین پر تیسرا حملہ ضیا الحق نے کیا آئین پر اس کے بعد حملہ پرویز مشرف نے کیا جسکی عدلیہ نے تائید کی کسی جج کے عمل کی وجہ سے اس کی مذمت کریں پوری سپریم کورٹ کو نہیں کسی فوجی کے عمل کی مذمت کریں مگر پوری فوج کو نہیں اداروں پر تنقید نہیں کرنی چاہیے کیونکہ اداروں کے بغیر ملک نہیں چل سکتا پاکستان کو عدلیہ ، انتظامیہ اور فوج کی ضرورت ہےہم سب آئین پر عمل کے پابند ہیں ہمیں ریاست پوری زندگی تنخواہیں ادا کرتی ہے عوام کو چاہیے ہمارا انفرادی احتساب کریں ایک وزیراعظم تنخواہ وصول نہیں کر سکتے تھے نہیں اور چھپایا تو وہ صادق و امین نہیں رہے، ایک چیف جسٹس کا انٹرویو دیکھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے تھے اس چیف جسٹس نے کہا تھا کہ بھٹو کیس کا فیصلہ پریشر کی وجہ سے کیا گیا آئین ہی ملک کو متحد رکھتا ہے، عاصمہ جہانگیر کیلئے مزاحمت کا لفظ اچھا لگا ،آئین میں لفظ پی سی او کہیں نہیں ملتا ہے جبکہ جے آئی ٹی صرف انسداد دہشت گردی ایکٹ میں نظر آتا ہے لیکن ان الفاظ کے استعمال پر بڑے سوالیہ نشان ہیں ،صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون نے کہا کہ عاصمہ جہانگیر مزاحمت کی علامت تھیں ، متعدد بار ملکی تاریخ میں آئین کو توڑا گیا ہماری سیاسی جماعتوں کے مفادات اور اقتدار کی ہوس آئین شکنی کا سبب بنی ، تمام سٹیک ہولڈرز کو مل پالیسی بنانی چاہیے کہ ملک کو عوام کے منتخب نمائندے چلائیں ، ججز ہجوم سے ڈرنے کی بجائے آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کریں ،عدلیہ کا نظریہ ضرورت اور سیاسی جماعتوں کی اقتدار کی ہوس، عسکری ا نکروچمنٹ اور اختیارات سے تجاوز اورآئینی بحران کا سبب بنی ،آج ہم پھر بحران سے گزر رہے ہیں ،اگر آپ کے پاس اکثریت ہے تو حکومت کریں اگر دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو اسے حکومت کرنے دیں ، مخصوص ہجوم کی وجہ سے آئین کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا ججوں کو آئین پر عمل کروانا چاہئے ہجوم سے ڈرنا نہیں چاہئے، ماضی قریب میں قابل جج اندرونی اختلافات کا شکار ہوئے ہیں ،سپریم کورٹ بار سنیارٹی کے اصول کیساتھ کھڑی ہے اور اسکی حمایت کرتی ہے، سینیارٹی کے اصول پر صرف جسٹس اطہر من اللہ پورا اترتے ہیں باقی تین جج سینارٹی کے اصول کے برعکس ہیں، ہم نے سینارٹی کے اصول کا ساتھ دینا ہے، ضیاء الحق نے ایک ترمیم سے آئین کا حلیہ بگاڑ دیا ،آئین صرف براؤن یونیفارم والوں کی وجہ سے پامال نہیں ہوا اسکی تشریح کرتے ہوئے بھی کیا گیا ،سپریم کورٹ کو چند مخصوص ججوں کی مدد سے چلایا جارہا ہے، وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا عاصمہ جہانگیر نے طاقتور ترین حلقوں کے سامنے کھڑ ے ہوکر سب کے حقوق کیلئے آواز بلند کرنے کی روایت ڈالی،وہ آج بھی ہمارے دلوں میں زندہ ہیں،حکومت پاکستان آئینی حقوق کے نفاذ کیلئے کوشاں ہے، سینئر قانون دان عابد ساقی نے کہا ہم عاصمہ جہانگیر کی روایات کو لیکر آگے چلیں گے، ، وفاقی وزیر احسن اقبال نے کہا پاکستان کو سیلاب سے بتیس ارب ڈالر کا نقصان ہوا دیکھنا یہ ہے کہ جس طرح دنیا اظہار یکجہتی کر رہی ہے کیا وہ جیب بھی اسی طرح کھولتی ہے ،بعد ازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے احسن اقبال نے کہا عمران خان کے خلاف نااہلی کا فیصلہ متفقہ آیا ہے، عمران خان کو گھیراؤ جلاؤ کرنے کی بجائے عدالتوں سے رجوع کرنا چاہیے، ہالینڈ کی ڈپٹی سفیر لیان ہوبین نے کہا قانون کی حکمرانی، مساوات کے بغیر کوئی معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا،ہیومن رائٹس واچ کے سروپ اعجاز نے کہا اداروں کو شہریوں کی تضحیک نہیں کرنی چاہئے ، ہم نئے قانون اور آئین بنا سکتے ہیں لیکن سیاسی کلچر کے بغیر اسکا کوئی فائدہ نہیں،ایگزیکٹو ڈائریکٹر سنٹر فار پالیسی الٹرنیٹوز سری لنکا کے پیکیاستھی سراوانموتھو کا نے کہا ہم اصول ٹھیک کر لیں تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا ،سویڈن کے سفیر ہینرک پیرسن نے کہا عاصمہ جہانگیر کے شروع کئے گئے کاموں کو آگے لیکر چلیں گے ، پاکستان صنفی تفریق کے خاتمے کیلئے قانون سازی کر چکا ہے، تحریک انصاف کےرکن قومی اسمبلی امجد علی خان نیازی نے کہا بدقسمتی یہ بھی ہےاداروں کی بجائے شخصیتوں کو مضبوط بنایا گیا ، ، سابق وزیر اعلی ٰبلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کو آج تک ان کا حق حکمرانی نہیں دیا گیا ، سیکیورٹی اداروں سے مذاکرات کی ضرورت ہے تو ہم تیار ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ یہ غلط بیانیہ بنا دیا گیا ہے کہ بلو چ سردار اور نواب بلوچستان کی موجودہ حالت کے ذمہ دار ہیں۔اصل قصور وار اسلام آباد والے اور وہاں بیٹھے کچھ بلوچ سردار ہیں ، ممبر بلوچستان اسمبلی ثنا اللہ بلوچ نے کہا کہ راتوں رات پارٹی بنانا اور ٹھپے لگانا نہیں چلے گا، 75 سالوں میں ہم یہ طے نہیں کر سکے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں یا بندوق ۔بندوق نہیں پارلیمنٹ کو طاقتور بنائیں ۔ سابق وزیر تعلیم ،ایم این اے زبیدہ جلا ل نے کہا بلوچستان کے بارے میں یہاں کے وسائل کے حوالےسے بات کی جاتی ہے کبھی ریکو دک ، کبھی گوادر اور دیگر معدنیات تاہم بلوچوں کے بارے میں کوئی سوچتا ہی نہیں ، جب کوئی الیکشن جیت کر آتا ہے تو ہم سلیکٹیڈ کے نعرے لگانے شروع کر دیتے ہیں اور جب ہم خود الیکشن جیت جائیں تو سب ٹھیک ہے ، سیاستدان اپنی ذمہ داری پوری نہیں کریں گے تو پھر کسی نے تو یہ خلا ء پر کرنا ہے۔ “حق دو گوادر كوـ”تحریك كے بانی و جنرل سیكرٹری جماعت اسلامی بلوچستان مولانا هدایت الرحمن بلوچ نے کہا تیسرے درجے کا شہری بن کر ریاست پاکستان کے ساتھ نہیں رہیں گے ،انہوں نے کہاکہ اورنج ٹرین ضروری تھی یا مجھے پانی پلانا ضروری تھاِ ،میڈیا کو ہماری ماؤں کے دکھ کیوں نظر نہیں آتے ، اہل پنجا ب کو ہماری بات کر نا ہوگی ، سیشن کے ماڈریٹر رفیع اللہ کاکڑ نے کہا کہ شیعہ سنی فساد بلوچستان کا مسئلہ نہیں تھا مگر اس کو بھی یہاں امپورٹ کر لیا گیا ، خوشحال کا کڑ نے کہا سعودیہ اور ایران کے تنازعہ کے لیے بلوچستان کو میدان جنگ بنایا گیااور اس کے عوض ڈالر لیے گئے، پختونوں اور پشتونوں کو ریشیا کی جنگ مین جھونکا گیا،انہوں نے کہاکہ فاٹا وزیرستان میں دہشت گردوں کو دوبارہ خود منظم کیا جا رہا ہے وہاں کے عوام خود نکل کھڑے ہوئے ہیں ، افغانستان کے سابق سفیر عمر زخیلوال نے کہا اگر طالبان نے دنیاکے سامنے ایک جائز حکومت بننا ہے تو انہیں انسانی حقوق اور خواتین کے حوالے سے مسائل کو حل کرناہو گا ، افغان صحافی اور انسانی حقوق کی علمبردار محبوبہ سراج نے کہا ایک وقت تھا کہ افغان خواتین کی آواز اتنی کم تھی کہ کوئی سن بھی نہیں سکتا تھا لیکن اب وہی خواتین اپنے حقوق کے لئے دھاڑ رہی ہیں ۔ افغانستان کی خواتین کے معاملات کی سابق وزیر سیما ثمر نے کہا ہم نے گھریلو تشدد کے حوالے سے قوانین بنائے۔ طالبان حکومت میں بھی قرآن میں دیا گیا (اقراء ) کا پیغام افغانستان میں نظر نہیں آتا،افغانستان میں ہزارہ کمیونٹی اور اقلیتوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ملک اس طرح زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکے گا ۔ کانفرنس میں آئینی عدالتوں کی ضرورت کے عنوان پر اپنے خطاب میں سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی نے کہا ہے کہ میثاق جمہوریت میں لکھا تھا کہ آئینی عدالتیں بنائی جائیں گی لیکن پھر 18ویں ترمیم کے وقت جب بحث ہوئی تو کہا کہ آئینی عدالتوں کی فی الحال ضرورت نہیں،آج تک جتنی بھی حکومتیں بنیں وہ سمجھوتے ہی کرتی آئیں۔ ان میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ عدلیہ کو غلط کام کرنے سے روکنے کیلئے کوئی قانون بنائیں ، شروع دن سے عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کے حوالے سے گٹھ جوڑ رہا ہے اسٹیبلشمنٹ کے پاس طاقت رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فوجی بغاوتوں کو لیگل کور دیئے گئے ، جب تک یہ نہیں بدلیں گے جو مرضی ترامیم کر لیں جتنی مرضی عدالتیں بنا لیں نتیجہ وہی نکلے گا جو نکلتا آیا ہے۔ ججوں کی تعیناتی میں سب سے زیادہ اہم سنیارٹی ہونی چاہئے ،18ویں ترمیم میں بہت کچھ کرناچاہئے تھا لیکن پارلیمینٹ نے سمجھوتہ کیا اور 19ویں ترمیم لائی گئی جس کے بعد جس طرح پارلیمینٹ کے متعلق عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں زبان استعمال کی وہ پی ایل ڈیز کا حصہ بن چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ جوڈیشری اور پارلیمینٹ آئیسولیشن میں نہیں چل سکتیں۔ سابق چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ پاکستان میں ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی اجارہ داری ہے اور چھ سال سے یہ اجارہ داری اقتدار اور غلبے کی طرف شفٹ کی جا رہی ہے پارلیمینٹ بیکار ہو چکی ہے ،سابق جسٹس سندھ ہائی کورٹ رشید اے رضوی نے کہا کہ وکلاء تحریک کے بعد عدلیہ مادر پدر آزاد ہو گئی ہے۔ وہ اپنی حدود کا تعین اورپسند اور ناپسند کی بنیاد پرکر رہی ہے ،عدالتیں بھول گئیں ہیں کہ ان کے پچھلوں نے 1950ء سے لے کر 1980ء تک کیا فیصلے کئے۔ رشید اے رضوی نے کہا کہ 2007ء کے بعد عدلیہ زیادہ طاقتور ہوئی انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم میں جو اہم بات رہ گئی کہ عدلیہ کی آئینی حدود کا تعین کرنا ہے انہوں نے کہاکہ وقت آ گیا ہے کہ وفاقی وزیر قانون اس پر کچھ کریں ، اگر ابھی بھی انہیں لگام نہیں ڈالی تو آنے والے وقت میں بہت مشکل ہو گی ، یونیورسٹی آف بار سلونا کے آئینی قانون کے ماہر انتونیو مارٹن گومز نے کہا کہ پاکستان میں وکلاء کی تحریک نے دنیا کو حیران کر دیا ہے ، بڑا سوال یہ ہے کہ آئینی عدالتیں جوڈیشل ایکٹوزم کے ساتھ کیسے ڈیل کریں گی۔ انہوں نے کہا کہ ججوں کی تعیناتی میں اتفاق رائے ہونا چاہئے اور ان کی مدت ملازمت میں توسیع نہیں ہونی چاہئے۔ کچھ ایسا کریں کہ جج سیاسی نہ ہو جائے ۔ پروفیسر ڈاکٹر صدف عزیز نے کہا انسانی حقوق کے حوالے سے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آئین میں اتنی واضح نہیں۔پہلے روز سات سیشن ہوئے ،آج سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اختتامی سیشن سے خطاب کریں گے۔